نام محمدﷺ کی برکت سے جنگ میں فتح
ظہور اسلام کے موقع پر عرب قبائل کی مختصر اور منتشر فوج نے شمال مشرقی عرب میں “ذ وقار” یا “ذی وقار” کے مقام پر طاقتور اور منظم ایرانی فوج کو شکست فاش دی۔ اس جنگ نے عربوں میں نیا جوش و جذبہ پیدا کیا اور غیر ملکی طاقتوں کے حوالے سے ان میں بڑی فکری تبدیلی آئی۔
اس جنگ کا سبب یہ تھا کہ نعمان بن منذر نے کسری پرویز کے خوف سے بھاگتے وقت اپنے اہل وعیال اور زرہ کو ہانی بن مسعود بن عامر شیبانی کے پاس امانت رکھا، کسری پرویز نے ہانی بن مسعود سے نعمان بن منذر کے دو بیٹوں اور زرہوں کا مطالبہ کیا’ اس نے صاف انکار کر دیا تو کسری نے بنو شیبان پر فوج کشی کا حکم دیا اور شدید جنگ کے بعد بنو شیبان کو کسرائی لشکر کے مقابلہ میں فتح حاصل ہوئی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ رسول اللہ کی برکت سے عربوں کو عجمیوں پر فتح حاصل ہوئی۔
اس جنگ میں ایرانی فوج منظم اور یونیفارم میں تھی جبکہ عرب فوج غیر منظم اور یونیفارم (وردی) کے بغیر تھی۔ اس وقت عربوں نے جب کہ جنگ زوروں پر تھی دوست و دشمن میں فرق و تمیز کے لیے شناختی الفاظ استعمال کیے۔ ہمیں قدیم مؤرخین سے علم ہوتا ہے کہ ذوقار کی جنگ میں عربوں کا شناختی نعرہ یا محمد تھا ( الیعقوبی ” تاریخ” جلد دوم صفحہ سینتالیس، ابن حبیب “محبر” صفحه تین سو ساٹھ، “طبری” جلد اول ایک ہزار اکتیس) لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ ایسا کیوں تھا؟ ہم شاید اس کا تعلق اس حقیقت سے جوڑ سکتے ہیں کہ سرور کائنات کی پیدائش کے موقع پر تمام عرب میں یہ افواہ گردش کر رہی تھی کہ اسی دور میں نبی آخر الزماں کا ظہور ہوگا اور یہ کہ اس کا نام محمد (ﷺ) ہو گا۔ اس وقت کون سا بہتر انتخاب ہوسکتا تھا جب کہ ذوقار کے مقام پر وجود کے بقا کی اذیت ناک جد و جہد جاری تھی سوائے اس کے کہ جنگجوؤں کے جوش و جذبہ کو ابھارنے کے لیے اس نجات دہندہ کا نعرہ استعمال کیا جائے جس کا ایک عرصہ سے انتظار کیا جا رہا تھا۔